Total Pageviews

Tuesday 5 February 2013

Ibn-e-Mariam Hua Karey Koi

Son of Mary, be He who He may... An English translation of the story by Mubashir Karim


ابن مریم ہوا کرے کوئی
سڑکیں آئینہ بن گیئں جب مارچ کی تازہ بارشوں نے ان میں اپنا عکس بھرا- اسکی اسکول بس کی لال بتی سے برستا لال رنگ سڑک پے ایسے بکھر کر چمک اٹھا کہ مجھے مسیح کے خون کی یاد آگئی- وہ مقدس خون جو مسیح کو دئے ھوۓ زخموں سے انہیں مصلوب کرتے وقت بہا ہوگا – ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا چلا تو مجھے مسیح کے زخموں کی ٹیس اپنے وجود میں محسوس ہوئی اور میں خیالوں کے بہاؤ سے کنارے لگا – بلرام مجھے اس درگاہ کے بارے میں کہے جا رہا تھا جس کو دیکھنے کے لئے میں آیا تھا – مگر میں اس معصوم لڑکی کو دیکھ کر کب مسیح کی یادوں میں کھو گیا تھا مجھے معلوم ہی نہ چلا –
"کیسپر سن رہے ہو؟" بلرام نے مجھے ہلاتے ھوۓ پوچھا –
"ہاں ہاں" میں نے جواب دیا –
"یہی ہے وہ درگاہ جہاں مسیح دفن ہے" بلرام نے کہا "مگر یہاں کے لوگ نہیں مانتے، سالے. . ."
میں حیران ہوا اسکے سالے کہنے پر – میں اس سے کہنا چاہتا تھا کہ مانتے تو ہم مسیح والے بھی نہیں ہیں، پھر مجھے اسکی آرمی والی وردی پر نظر پڑی اور میں چپ ہوگیا، مگر وہ بولتا رہا –
"اور تو اور، یہ کسی فرنگی کو وہاں جانے نہیں دیتے – کہتے ہیں کہ وہ اس درگاہ میں مسیح کو ڈھونڈتے ہیں، اگر انہیں مل گیا تو اسے اپنا حصّہ بنا لینگے -"
"ہا! ہا! " وہ ہنسنے لگا "حصّہ تو ہمیشہ کشمیر بھارت کا ہی رہے گا " اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی بندوق کس لی –
بلرام ایسا بالکل نہیں تھا – وہ دہلی مشنری اسکول میں میرا دوست رہا تھا – اسکے والد آرمی میں تھے لیکن انکو آرمی اسکولوں کی تعلیم پے بھروسہ نہیں تھا، اسلئے اسکا  ہمارے مشنری اسکول میں داخلہ کروایا – ہم دونوں ایک ہی بینچ پے بیٹھتے تھے اور میری اور بلرام کی دوستی مسیح کی وجہ سے ہی ہوئی – میرے گلے میں کروسس کا لوکٹ دیکھ کر اسنے کہا کی مجھے مسیح بہت پسند ہیں – مجھے معلوم تھا کہ مجھسے بات کرنے کے لئے وہ یہ کہ رہا تھا – مگر پھر جب اسنے کہا کی مجھے وہ اسلئے پسند ہیں کیونکہ وہ بہت "مسٹیریس " ہیں تو مجھے "کیوں" پوچھنا پڑھا – اور پھر ہماری بات چیت آج تک چل نکلی –
مگر تب کا بلرام ----- آج کا بلرام نہیں تھا – مجھے ابھی  بھی وہ اسی اسکول کی یونیفارم میں صبح کی اد جگی آنکھوں میں نیند چھپاے یاد آتا ہے – کتنا معصوم تھا وہ تب اور اب ایک دم سخت – میٹرک کے امتحان کے بعد وہ آرمی کے کسی کالج میں چلا گیا اور پھر آرمی میں بھرتی ہو گیا – ہماری بات چیت فون پے ہی ہوتی – اس دوران اس میں کافی تبدیلی آگئی تھی –
ویسے بدل میں بھی گیا ہوں ، ایسا بلرام کہتا ہے – میرا شوق ہسٹورین بننے کا تھا اور اب اپنے اسی  مشنری اسکول میں ٹیچر ہوں – میٹرک تک آتے آتے اصل میں مسیح کی ذات مقدس کی طرف میرا رجحان زیادہ رہا اور میں انکی تلاش میں کھو گیا – پچھلے ایک دو سال سے ایک مخصوص ادب کی طرف میرا دھیان گیا – مسیح کی مسیحائی کی تلاش مجھے کشمیر لے آئ – اصل میں یہ وہ کتابیں ہیں جو یہ کہتی ہیں کی مسیح مصلوب ہونے کے بعد جب زندہ ھوۓ تو یورپ سے نکل کر ہندوستان کی طرف اے اور اپنی عمر کے آخری دن کشمیر کی سرزمین پے کشمیریوں کے ساتھ گزارے اور انکا مزار یہاں خانیار میں اب بھی موجود ہے – اور اب میں ٹھیک وہیں کڑھا تھا ، انکے مزار سے ایک سڑک کے فاصلے پر –
مگر یہاں آتے آتے مجھے بہت کچھ جھیلنا پڑا – کوئی کشمیر جانے کی اجازت ہی نہیں دے رہا تھا – نہ گھر والے اور نا ہی اسکول کی کمیٹی – اسکول کی کمیٹی کو میں نے یہ که کر منا لیا کی مسیح پر ریسرچ کے لئے جا رہا ہوں اور گھر والوں کو یہ که کر کی وہاں بلرام کی پوسٹنگ ہے ، اسلئے کوئی ڈر نہیں – تب جا کر میں کشمیر کی اس مقدس سر زمین پر پوھنچا جہاں میرے مسیح نے قدم رکھیں ہیں – میرے لئے یہ زمین اور یہاں کے لوگ بہت مقدس ہے ، اسلئے کبھی کبھی جب بلرام کشمیر اور یہاں کے لوگوں کو گالی دیتا ہے تو مجھے بہت غصّہ آتا ہے –
میں کشمیر پوھنچا تو بلرام سے ملا اور اسے بتایا کہ مجھے خانیار اس مزار پے جانا ہے – بلرام کو وہ جگہ معلوم تھی – دو مہینے پہلے اسکی وہیں پوسٹنگ تھی اور پھر اس دن وہ مجھے وہاں لے گیا – اور وہ مزار جو کہ ایک درگاہ تھی دکھائی – مگر وہاں کچھ عجیب ہوا – ان دو تین سالوں سے میرے دل و دماغ میں مسیح کے بارے میں سوچتا تو بس یہی خیالات آتے کہ وہ کیسے اور کیا کرتے رہے ہونگے کشمیر میں – ایک بار بھی مجھے وہ صلیب پے یاد نہیں اے – مگر اس روز جب میں انکا مزار دیکھنے گیا تو بس اسٹاپ پر انتظار کرتی اس معصوم لڑکی کو دیکھ کر مجھے مریم یاد آگئی اور جب وہ بس میں چڑھی تو وہ لال رنگ کب مجھے مسیح کے خون اور زخموں کی یاد دلا گیا مجھے خبر ہی نہ ہوئی – دو سالوں سے میں جس مزار کو دیکھنے کے لئے تڑپا تھا وہ میرے سامنے تھا مگر میرا دل کہیں اور تھا – یا تو یہ شیطان مجھے بھٹکا رہا تھا یا تو پھر وہ معصوم لڑکی مسیح کا پیغام بن کر آئ ہے ، میں نے سوچا –
میں نے بلرام سے کہا کی میں کل پھر آونگا اور چونکہ مجھے اب راستہ معلوم ہے ، میں اکیلے ہی آونگا – میں نے ٹایم نوٹ کر لیا تھا ٨:١٠ تھے  یعنی مجھے  آٹھ بجے یہاں پہنچنا ہوگا ، میں نے خود سے کہا – اور پھر اگلے روز میں آٹھ بجے  وہاں پہنچا اور وہ معصوم بچی پھر اپنی اسکول بس کی منتظر تھی – آج اسکی معصومیت اور اسکے وجود کی تقدیس میں محسوس کر رہا تھا – اگر مجھے جنموں پے یقین ہوتا تو ضرور وہ مقدس مریم ہوتی – میں نے سڑک پار کرنے کا من بنایا تو میرا سارا وجود کانپنے لگا – میں نے راستہ بدلا اور واپس اپنے کمرے کی طرف آگیا –
میرا کمرہ پاس ہی کے محلّے میں کاٹھی دروازہ کے پاس تھا – ایک چھوٹا سا کمرہ تھا – بلرام نے کہا تھا کی اسکے ساتھ آرمی کے کیمپ میں رہوں مگر ایک رات رکا تو میرا دم گھٹنے لگا – اس جگہ سے بھی اور ان لوگوں کی باتوں سے بھی – اس رات سوتے وقت میں نے خود سے کہا کہ نہ تو مجھے کشمیر کے حالات سے کچھ لینا ہے اور نا ہی کشمیر کے مسلے سے – مجھے آرمی کے جھمیلوں میں بھی نہیں پڑھنا اور نا ہی کشمیر کی آزادی میں الجھنا ہے – میرا کام مسیح کو ڈھونڈنا تھا اور اس تلاش کی آخری کڑی وہ مزار ہے – ایک بار وہاں حاضری دے کر واپس چلا جاؤں ، بس – اسی وقت میں نے فیصلہ کر لیا کہ ایک چھوٹا سا کمرہ کہیں لے لونگا کچھ دن کے لئے اور واپس چلا جاونگا – ہمارا چرچ جو ڈل گیٹ میں ہے وہاں کے لوگوں نے یہ کمرہ دلایا –
اس رات اس کمرے میں بیٹھ کر میں نے اس بچی کے بارے میں خوب سوچا اور اس کے مقدس خیال پے ہی مجھے نیند آگئی – صبح جاگا تو میں نے فیصلہ کیا کی آج اس سے ضرور بات کرونگا – صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی میں چل نکلا – آس پاس کی مسجدوں سے گانے کی آوازیں آ رہی تھی ، جو میرے کانوں کو بہت اکچی لگ رہی تھی – میں خانیار پوھنچا اور اتنے دنوں میں پہلی بار میں نے دیکھا کی وہاں پاس ہی میں شہیدوں کا مزار ہے – میرا ذہن بلرام کی بات چیت اور ان کشمیری قبروں میں الجھنے ہی والا تھا کہ میں نے خود کو روک لیا اور سیدھے مسیح کی قبر کی طرف چل نکلا – وہاں اس وقت کوئی نہیں تھا – لوہے کا گیٹ بندھ تھا – میں نے کھٹکھٹایا تو ایک بوڑھا آدمی میری طرف مسکراتا ہوا آیا اور گیٹ کھول کر واپس چلا گیا – میرا دل زوروں سے دھڑکنے لگا – مزار کو اچھے سے رکھا تھا یہاں کے لوگوں نے – اندر گھسا تو میں تھر تھر کانپنے لگا – اندر ایک لمبی قبر تھی جس پر چادر چڑھی تھی – میں نے قبر کو چوما اور پھر آنسووں کا وہ طوفان مچا کی میں خود بھی حیران ہوا کی اتنے آنسو کہاں سے اے – ایک گھنٹہ وہاں گزارنے کے بعد میں باہر نکلا تو دیکھا کہ میرے آنسووں کی نمی نے زمین بھی بگھو دی ہے – بارش ہو رہی تھی – اور میں بس اسٹاپ کے قریب رک گیا – آٹھ بجنے میں ابھی کچھ منٹ تھے – بارش کی بوندیں میرے گال تھپتھپا رہی تھی اور میں ان میں دھل کر پاکیزہ محسوس کر رہا تھا – اسی دوران وہ بچی میرے سامنے کھڑا ہوگئی – میں اسے دیکھ کر ڈر گیا اور اپنے ہاتھ میں رکھے کراس کو زور سے دبایا –
"میرا نام مریم ہے" اس بچی نے کہا –
یہ سن کر میرے پاؤں سے زمین نکل گی اور میں گش کھا کر گر ہی جاتا اگر آسمان میں زور سے بجلی نہ کڑکتی –
"ہیلو" – میرے منہ سے نکلا اور من ہی من میں ناراض بھی ہوا خود سے کہ بس یہی ایک لفظ ملا تھا مجھے مقدس مریم سے بات کرنے کا – مگر ، مگر یہ مریم نہیں ہو سکتی – میں کیسے جنموں کو ماں لوں – کیا ہو رہا تھا میرے ایمان کو –
"تم کیسپر ہو نا!" اس نے کہا اور یہ سن کر تو میں مرر ہی گیا مگر میں نے ادب سے جواب دیا "جی ہاں – لیکن آپ کو کیسے معلوم ؟"
"مجھے مسیح نے کہا تم آؤگے – مگر اتنی دیر سے مجھے معلوم نہ تھا -"
میں حیران اسے سنتا رہا – مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے – میں نے پوچھا "مسیح نے کہا مطلب ؟"
"مسیح مجھے نظر آتے ہے – وہ مجھ سے بات کرتے ہیں – انہوں نے کہا کی وہ مسافر جو میرے جنم پے مجھسے ملنے آیا تھا ، وہ میری موت کی تلاش میں اے گا ، اسے بتا دینا "
"کیا بتا دینا ؟"
اتنے میں اسکی اسکول بس آگئی اور نکلتےنکلتے اسنے کہا ، "وہ تمھیں ویسے ہی ملے گا جیسا تم نے اسے دیکھا ہے -"
یہ که کر وہ بس میں چڑھ گئی اور میں سڑک پے بکھرے اسکی اسکول بس کی لالی میں مسیح کا نشان ڈھونڈتا رہا ، جو مجھے نہیں ملا – میں حیران تھا اور پریشان بھی – وہ لڑکی کیا کہہ گئی – مسیح اگر اسے سچ میں نظر آتے ہیں تو پھر وہ کیا کہنا چاہتے ہیں – میں نے انہیں ہمیشہ درد میں دیکھا تھا – کیا وہ اب بھی درد میں ہی ہیں – میں نے بچپن سے آج تک ان کو ہر جگہ صلیب پے ہی دیکھا ، کیا وہ آج ہی صلیب اٹھاے ہیں – وہ کیا کہنا چاہتے تھے ؟؟
میں اضطراب میں تھا ، کشمکش میں تھا – کمرے پے واپس چلا گیا تو وہاں بھی چین نہ ملا – سیدھا بلرام کے کیمپ کی طرف چلا – وہاں پوھنچا تو پتا چلا کی اس کی پوسٹنگ کہیں اور ہو گئی ہے – مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کی کیا کروں – کبھی سوچتا کی مریم سے پھر ملوں – پھر سوچتا کی اسے جو بتانا تھا اس نے بتا دیا – جو تھا مسیح کے انہی لفظوں میں تھا – معنی کا طلسم تھے مسیح کے وہ لفظ مگر اسے کھولنے کا لفظ میرے پاس نہ تھا – میں سیدھے ٹکٹ کرانے گیا اور شام کے جہاز سے دلی واپس آگیا –

دلی آکر بھی میں چین سے نہ رہ پایا – مسیح کا وہ جملہ جو مریم کے دہن سے ادا ہوا مجھے اندر ہی اندر مار رہا تھا – میں نے ہزار بار سوچا کہ اس جملے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے – مسیح کیا بتانا چاہتے تھے – مگر ... پھر کچھ روز پہلے میں نے ایک خواب دیکھا – میں نے مریم کو دیکھا اور وہ مجھسے که رہی تھی "میں زندہ ہوں مجھ سے ملنے نہیں آؤگے -" میری نیند ٹوٹی اور اگلے روز ہی میں کشمیر واپس آ پہنچا –
دو مہینے گزر گئے تھے – جون کی گرمی میں بھی یہاں کی ہوا میں سردیوں کی خوشبو تھی – ہر طرف سبزہ تھا – زندگی جنم لے رہی تھی ہر طرف – میں نے بلرام کو فون کیا تو پتا چلا کہ اسکی ڈیوٹی واپس خانیار چوک میں ہے – میں خوش ہوا اور سیدھے اسکے کیمپ کی طرف چلا – وہاں پہنچا تو دیکھا کہ بلرام زخمی ہے – میں اسے دیکھ کر گھبرایا تو اسنے کہا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں – ان کے کیمپ پر کچھ دن پہلے حملہ ہوا اور گولی اسے چھو کر نکلی اور وہ گر پڑا – ہڑی ٹوٹی تھی اسکی – "پھر" میں نے پوچھا –
"کچھ نہیں ، پاس ہی کے محلے میں چھپے تھے – پکڑ لیا سالوں کو – اور اس بار تو حد ہی ہوئی ، سالے بچوں سے ہتھیار پہنچاتے ہیں ... " میں بلرام کے سالے پر ہی چڑ گیا تھا ، پھر وہ کیا بولتا رہا میں نے کچھ نہ سنا – میں لیٹ گیا تھا اور سونے کی تیاری میں تھا – کل مسیح کی بات کا راز کھلے گا – مجھے یقین تھا مریم کے پاس ضرور کچھ اور پیغام ہے – میں صبح کے انتظار میں سو گیا –
صبح ہوئی تو میں تیار ہو کر ٨/آٹھ کے قریب بس اسٹاپ پے پہنچا – لیکن مریم نہیں آئ – ٨ : ١٠  پے اسکی اسکول بس بنا رکے میرے سامنے سے بنا لال بتی دکھا کر  گزر گئی – میں ٩/نو بجے تک وہیں انتظار کرتا رہا – پھر جب وہ نہیں آئ تو میں نے مسیح کے مزار کا رخ کیا – وہاں سے ہوتا ہوا میں پاس کے محلے میں پہنچا – کچھ دکانداروں سے پتا کیا کہ وہ جو بچی ہر روز یہاں اسکول کے لئے رکتی ہے ، اسکا گھر کہاں ہے – سب نے بڑی رنجیدہ صورت بنا کر مریم کا گھر دکھایا – میں گھر کے قریب پہنچا ، دروازہ کھولا تو دیکھا کہ اندر ہجوم ہے لوگوں کا – میں سہم سا گیا – تھوڑی ہمت جٹا کر میں گھر کی طرف چلا – وہاں کوئی عورت سینہ پیٹ پیٹ کر روتے روتے چلا رہی تھی ، اسی طرح جس طرح ہر ماں اپنی اولاد جدا ہونے پے چلاتی ہے – میں کانپنے لگا – پاس ہی کھڑے آدمی سے میں نے پوچھا "کیا ہوا ہے ...؟"
وہ چڑ گیا ، شاید میری اردو پر کیونکہ وہاں سب کشمیری میں بات کر رہے تھے – پھر کچھ وقفے کے بعد اس نے کہا "وہی جو ہوتا ہے کشمیر میں ، لے گئے اس بچی کو اور لاش تک نہیں دی -"
میں دھنگ رہ گیا – جیسے میرے دماغ میں بمب پھٹا ہو – کانپتے کانپتے میں نے پوچھا "مریم کو؟"
اس آدمی نے روتے روتے ہاں کہا – میں وہیں بت کی طرح کھڑا رہا – مجھے زمین پے اپنے پاؤں بھی محسوس نہ ہوے – ایسا لگا زمین کے کھسکنے کے ساتھ ساتھ میرے پاؤں بھی ساتھ چلے گئے ہوں – مریم کی ماں روتی رہی اورمیں اسکی چیخوں کے سیاہ ساۓ میں اس کے گھر سے واپس نکلا – اور سیدھے بلرام کے کیمپ پہنچا – مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا – کمرے میں بلرام کو دیکھا تو مجھے اسکی حملے والی بات یاد آئ – میں نے چلا کر پوچھا "تم نے اس بچی کے ساتھ کیا کیا ؟"
بلرام حیران رہ گیا – شاید میں اپنی دوستی کی پوری عمر میں پہلی بار چلایا تھا اس پر – وہ گھبرا کر بولا "کس ... کس بچی کا؟"
"مریم کا "
"تمھیں... اس کا نام کیسے معلوم؟"
میں نے غصّے میں اسکے دونوں کاندھوں کو زور سے پکڑا اور کہا "کیا کیا تم نے مریم کے ساتھ ؟"
"میں ... میں نے کچھ نہیں کیا – وہ ... وہ سالی اگروادیوں کے ساتھ تھی - "
پھر دیکھتا ہوں کی بلرام اپنا گال تھامے ہوۓ ہے – غصّے میں کب میرا ہاتھ اٹھ گیا مجھے معلوم ہی نہ چلا –
میں نے چلایا "مجھے بتاؤ کیا کیا تم نے ...وہ کہاں ہے ...بتاؤ"
"وہ مر گئی" بلرام نے ڈرتے ڈرتے کہا –
"نہیں ...وہ زندہ ہے" میں نے روتے روتے جواب دیا "مجھے معلوم ہے وہ زندہ ہے – اس نے کہا ہے مجھ سے – بلرام مجھے بتاؤ کہاں ہے وہ -"
"کیسپر میں سچ کہ رہا ہوں ، وہ مر گئی -"
اس بات سے میرا دم گھٹنے لگا اور میں اس کیمپ کی کانٹے والی تاروں کو چیرتا ہوا باہر نکل آیا – مگر وہ تاریں میرے جسم سے لپٹ گیئں تھی اور تیزی سے میری روح میں چب رہی تھیں اور مجھے زخمی کر رہی تھیں – ایک تار کا ٹکڑا میرے سر سے چمٹ گیا اور دھیرے دھیرے میرے دمماغ کو ڈسنے لگا – میری ذات مجھ پر کوڑے برسا رہی تھی اور میں اپنے کاندھوں پے ہزاروں صلیبوں کا وزن محسوس کر رہا تھا – میں صلیبیں گھسیٹتا ہوا مسیح کے مزار تک پہنچا – وہاں دیوار کے ساۓ میں بیٹھا تو دیکھا کہ دیوار خون آلود ہے – یہ میرا خون دیوار پے ہے یا مسیح کا ، میں یہی سوچ رہا تھا کہ پاس والا دوکاندارغصّے میں میرے پاس آیا اور کہنے لگا "کیمرہ نہیں لاۓ – کل اخبار میں کیا خاک چھاپوگے – ہاں یہی ہے اسکا خون ، اس کے معصوم سر پے لات ماری تھی یہیں ان کمینوں نے – ایک بچی کو بھی نہیں چھوڑتے تم لوگ-" اور وہ روتے روتے چلا گیا –
میں نے دیوار پے خون کے دھبے کو دیکھا – بالکل صلیب کے نشان سا تھا – میں نے وہ صلیب بھی اٹھائی اور واپس کیمپ میں چلا گیا – بلرام مجھے دیکھ کر چونکا اور بندوق تھام لی – میں حیران ہوا – میں نے سیدھے اسکا گریبان پکڑا اور کہا "اسکی لاش کیوں نہیں ملی اسکے گھر والوں کو-"
بلرام بندوق پے پکڑ مضبوط کر کے بولا "تب بتاؤنگا جب وعدہ کروگے کہ یہ بات کسی اور کو نہیں بتاؤگے -"
میں نے وعدہ کیا –
"لاش دے دینگے تو ہا ہا کار مچ جائے گا یہاں – لوگ کاٹ ڈالینگے ہمیں – اس لئے انہیں کہا ہے کہ وہ حراست میں ہے -"
"کیا کیا تم نے اس کے ساتھ؟" میں نے پھر پوچھا –
"ارے بابا! اچھے سے دفنایا اسکو -"
"کہاں؟"
"کیسپر ، دیکھ یہ میں نہیں بتا سکتا-"
میں نے گریبان کی پکڑ ہلکی کی اور کہا کی تجھے ہماری دوستی کا واسطہ ، که دے – مجھے اس کے پاس جانا ہے – میری آنکھوں میں چھپے درد کو شاید وہ سمجھ گیا تھا – اس نے کہا "مگر کیسپر تجھے بھی ہماری دوستی کا واسطہ ، کسی سے نہ کہنا – وہاں اور بھی ایسے کیسز ہیں – کسی کو پتا چلا تو میں برباد ہوجاؤنگا -"
میں نے پھر وعدہ دے دیا اور اس نے پتہ –
انہونے مریم کو دور ایک زمین میں دفنایا تھا – میں وہاں پہنچا تو ایک ویران میدان تھا – کہیں کہیں قبروں کے سے ٹیلے تھے مگر نام و نشان کے بغیر – یہاں مریم کو ڈھونڈنا ناممکن تھا – تب ہی مجھے کھدائی کی آواز سنائی دی – میں اس آواز کی طرف چل دیا – قریب پہنچا تو دیکھا کہ ایک لاش کفن میں لپٹی پڑی ہے اور کوئی آدمی قبر کھود رہا تھا – اسکی ننگی کمر میری طرف تھی اور اس پر کوڑوں کے بہت گہرے نشان تھے – میں قریب پہنچا تو وہ مڑا اور میں نے دیکھا کہ ایک کمزور بوڑھا آدمی ہے – بالوں اور داڑھی میں مٹی ہی مٹی ہے اور دانتوں میں خون – اسے دیکھ کر میرے منہ سے بے ساختہ "یا! مسیح" نکل گیا –
انہونے نظر میری طرف اٹھا کر کہا "اتنی دیر"
"لیکن مسیح ...یہ کیا...آپ یہاں اور ایسے -"
انکا چہرہ پتھر کی طرح سخت تھا –
"لیکن آپ مسیحا ہیں... مسیحائی آپکا ..."
ابھی میں جملہ پورا نہ کر کر پایا تھا کی انہونے بیلچا اٹھا کر ، زمین کھودتے ھوۓ کہا "میری مسیحائی قتل ہو چکی ہے ... میرا کام اب بس دفنانا ہے -"


No comments:

Post a Comment